talaash dariyaa kii ba zaahir saraab dekhaa kishwar na
">
تلاش دریا کی تھی بظاہر سراب دیکھا
جو رت بھی آئے ہمیں سے گریہ کا رزق مانگے
ندامتیں بہتے آنسوؤں سے شرح نہ پائیں
برستی آنکھوں سے سوکھے تالاب بھر نہ پائیں
کبھی تو آنکھوں میں ان کی آبادیاں کھلیں گی
ابھی تو بخیہ گری کو سوزن ہی کام آئے
یقیں کہ تشنہ لبی مقدر رقم رہے گی
جتا گیا ساری عادتیں بس گلے سے لگ کے
خیال اس کے بدن کی گلیوں کو ڈھونڈتا ہے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Write comments